آپ یقیناً ہر کچھ عرصے بعد سنتے ہونگے کہ زمین کے نزدیک سے فلاں پتھر گزر رہا ہے، عموماً ایسے پتھر زمین سے لاکھوں کلومیٹر کی دوری سے گزرتے ہیں اور بیشتر کو مشتری اور زحل اپنی جانب بھی کھینچ لیتے ہیں، جس وجہ سے ہماری زمین محفوظ رہتی ہے۔ لیکن ماضی میں بیسیوں بار زمین سے مختلف سائز کے شہابیے ٹکرا چکے ہیں بلکہ ماضی میں یہ ٹکراؤ اتنے بھیانک بھی رہے ہیں کہ زمین سے 75 سے 80 فیصد تک زندگی کا خاتمہ کرچکے ہیں، آخری بار ایسا واقعہ ساڑھے 6 کروڑ سال قبل ہوا تھا... جب آسمانِ دُنیا سے ایک ایسا ہی پتھر آفت بن کر نازل ہوا، جس نے سیارہ زمین پر زندگی کا تقریباً خاتمہ کردیا تھا، اس واقعے کے زخم آج بھی زمین کے سینے پر نقش ہیں... یہ ایسا اندونہاک واقعہ تھا، جس کی سنگینی سمجھنے کے لیے ہمیں ساڑھے چھ کروڑ سال ماضی کا دریچہ کھٹکھٹانا پڑے گا اور تصور کرنا پڑے گا جیسے ہم وہاں موجود ہوں... ہم دل تھام کر ساڑھے 6 کروڑ سال ماضی کی دہلیز کراس کرتے ہوئے اُس عہد میں داخل ہوچکے ہیں، جسے Mesozoic Era کہا جاتا ہے، یہ Mesozoic Era کا آخری دن ہے، ہم اپنے آس پاس ڈائناسارس سمیت دیگر جانوروں کو چلتا پھرتا دیکھ رہے ہیں... سب کچھ انتہائی پُرسکون انداز میں چل رہا تھا، لیکن پھر اچانک سے آسمان پر ایک ستارہ نمودار ہوا، جو دن کی روشنی میں بھی سورج سے کئی گُنا تیز چمک رہا تھا... یہ عجیب و غریب ستارہ کچھ لمحے بعد زمین کی جانب بڑھتا دکھائی دینے لگا... اُس لمحے روئے زمین پر کسی مخلوق کو علم نہیں تھا کہ یہ چمکتا ستارہ دراصل زمین سے زندگی کی رنگینیاں چھیننے آرہا ہے... یہ 12 کلومیٹر وسیع ایک پتھر تھا جو تقریباً ایک لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی جانب بڑھے جا رہا تھا... آج تحقیقات بتاتی ہیں کہ یہ پتھر شمالی امریکہ میں ایک سمندری مقام پر گِرا، جہاں آجکل میکسیکو کا چکشلب (Chicxulub) نامی گاؤں آباد ہے... ایٹم بم سے ایک ارب گنا زیادہ شدت کے اِس ٹکراؤ نے زمین پہ زندگی کے مستقبل کی سمت ہی بدل کے رکھ دی... اس کے ٹکرانے سے اتنی شدید شاک ویو اور گرمائش پیدا ہوئی کہ اگلے ہی سیکنڈز میں آس پاس کے سینکڑوں کلومیٹر تک کے علاقے میں ہر شے راکھ کا ڈھیر بن گئی.... اس ٹکراؤ سے اٹھنے والے ملبے نے دور دور تک علاقوں میں آگ کے پتھروں کی بارش برسائی، کچھ راکھ خلاء میں اڑ کر زمین کے گرد غلاف کی شکل میں پھیل گئی جس نے زمین پر سورج کی روشنی بلاک کردی... ٹکراؤ کے فوراً بعد زمین پہ 11 ریکٹر اسکیل کی شدت کا ہولناک زلزلہ آیا اور سونامی کی دیوہیکل لہریں اٹھ کر ساحلوں کی جانب بڑھیں یوں سونامی کی وجہ سے خشکی پہ موجود ایک بڑی آبادی کا خاتمہ ہوگیا... اس کے بعد اگلا مرحلہ زمین کی فضاء میں کھربوں ٹن زہریلی گیسوں کے اخراج کا تھا... سمندر میں شہابیہ جس مقام پہ ٹکرایا وہاں معدنی چٹانیں موجود تھیں، جس وجہ سے فضاء میں کھربوں ٹن سلفر، کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور میتھین پھیلنا شروع ہوگئیں، چونکہ یہ گیسز جانداروں کے لیے زہرِقاتل ہیں لہٰذا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ شہابیہ عین اسی مقام پہ ٹکرایا جہاں اسے ٹکرانا چاہیے تھا اگر کہیں اور ٹکراتا تو شاید اتنے بھیانک نتائج سامنے نہ آتے.... پینتالیس منٹ کے بعد گیسز کے اس طوفان نے پوری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا... ٹکراؤ سے دُور کے علاقوں یعنی ایشیاء، افریقہ، یورپ وغیرہ میں موجود جانداروں کی موت انہی زہریلی گیسز کی وجہ سے ہوئی... اڑنے والی راکھ نے ویسے ہی سورج کی کرنوں کی زمین کی سطح تک رسائی بند کردی تھی لہٰذا زمین تاریکی میں ڈوب گئی... پودے خوراک نہ بنا پائے اور مرنا شروع ہوگئے، سمندروں میں ایلجی کے ختم ہونے سے سمندری فوڈ چین بُری طرح متاثر ہوا... خشکی پہ 25 کلو سے زیادہ کا کوئی جاندار نہ بچ پایا، تقریباً تمام بڑے جانور ٹھنڈ، بھوک اور دَم گُھٹنے کے باعث مر گئے... صرف کیڑے مکوڑے، چھوٹے جاندار اور پرندے ہی بچ سکے کیونکہ کیڑے مکوڑے مَرے ہوئے پودے کھا کر... جبکہ چھوٹے جاندار اور پرندے اُن کیڑے مکوڑوں کو کھا کر زندہ رہے... سورج کی روشنی کے ساتھ گرمائش بھی رُک ہوچکی تھی لہٰذا زمین شدید ٹھنڈ کی لپیٹ میں آگئی، اس دوران کیڑے مکوڑوں اور چھوٹے جانداروں نے زیر زمین رہ کر جان بچائی... کافی عرصے بعد جب گرد کے بادل چھٹنا شروع ہوئے سورج کی کرنوں کو زمین سے ٹکرانے کا موقع ملا تو زہریلی گیسز کی وجہ سے پوری زمین پہ تیزاب کی بارش ہوئی، جس کے باعث پوری زمین پر زہریلے کیمیکل پھیل گئے... اس واقعے میں صرف ڈائناسارس ہی نہیں بلکہ زمین پہ بہت سی انواع کا خاتمہ ہوا، زندگی کے مستقبل کا رُخ ہی بدل گیا، ڈائناسارس کی جگہ میملز نے طاقتور مخلوق کی جگہ لے لی اور 6 کروڑ سال سے اب تک میملز نے "طاقتور مخلوق" کا خطاب اپنے سر سجایا ہوا ہے... اِس سے پہلے ڈائناسارس 16 کروڑ سال سے طاقتور مخلوق چلی آرہی تھی اور پورے روئے زمین اُسی کی حکمرانی تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا یا یہ پتھر کسی اور مقام پر گر جاتا تو آج آپ اور میں یہاں نہ ہوتے بلکہ ڈائناسارس کی ہی بادشاہت چل رہی ہوتی... اس ہولناک واقعے میں زمین کی 75 فیصد مخلوق ہلاک ہوگئی تھی، زمین کی سلطنت کا تاج ڈائناسارس سے چھن کر میملز تک پہنچ گیا... یعنی 6 کروڑ سال قبل زمین پہ زندگی نے دوبارہ پنپنا شروع کیا... زمین پہ آج بھی شہابیے گرتے رہتے ہیں، جو عموماً چھوٹے سائز کے ہوتے ہیں، مگر اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے خاتمے کے لیے 12 کلومیٹر بڑا شہابیہ بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے...
محمد شاہ زیب صدیقی
زیب نامہ
0 Comments