جواب: یہ اس بات پر depend کرتا ہے کہ انسان کتنی اونچائی تک بآسانی کام کرسکتا ہے، کتنا پیسہ خرچ کیا جاسکتا ہے اور اس سب سے بڑھ کر کونسا مضبوط میٹیریل کتنی تعداد میں اس کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ زمین کی شدید گریوٹی کی وجہ سے زیادہ اونچے سٹرکچرز سٹیبل نہیں رہ پاتے۔ برج خلیفہ تاحال 828 میٹر بلندی کے ساتھ دنیا کی بلند ترین عمارت ہے، یہ اتنی اونچی ہے کہ اس کے ٹاپ فلور پر اور گراؤنڈ فلور پر سورج کے غروب ہونے کا وقت مختلف ہے، یعنی رمضان المبارک میں گراونڈ فلور پر روزہ ٹاپ فلور کی نسبت پہلے افطار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ بلند ترین عمارت کے لیے مختلف منصوبے ماضی میں پیش کیے جاتے رہے ہیں لیکن ماہرین جس منصوبے کو قابل عمل سمجھتے ہیں، ان میں سے جاپان کی ایک کمپنی نے 1995ء میں 4000 میٹر اونچی ایک عمارت بنانے کا منصوبہ پیش کیا تھا، اس عمارت کا نام XSeed 4000 رکھا گیا تھا، ظاہری بات ہے کہ عمارت جتنی اونچی ہوگی تو اس کی بنیاد اتنی بڑی ہونی چاہیے لہٰذا اس عمارت کا گراؤنڈ فلور یعنی بنیاد 6 کلومیٹر وسیع رکھنے کی تجویز دی گئی، اس عمارت کے 800 فلور ہونے تھے اور ایک وقت میں دس لاکھ بندوں کی رہائش کا انتظام موجود ہونا تھا، مزید یہ کہ اس عمارت کا اپنا مصنوعی فضائی دباؤ ہونا تھا اور سولر پینلز کی مدد سے اس کی بجلی کی کھپت پوری کرنے کا پلان تھا، بلڈنگ کے اندر نقل حمل کے لئے ٹرین چلانا بھی پراجیکٹ کا حصہ تھا۔ جب اس کی تعمیر کی قیمت کا جائزہ لیا گیا تو وہ ایک کھرب ڈالر بنی لہٰذا کم بجٹ کی وجہ سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ اسی طرح کچھ سائنسدان سپیس ایلیویٹر نامی ایک پراجیکٹ پر کام کرنے کی تجویز دیتے دکھائی دیتے ہیں، جس کی اونچائی 35 ہزار کلومیٹر ہوگی، اس سٹرکچر میں ایک لفٹ ہوگی، اس پراجیکٹ کی مدد سے خلاء میں اشیاء اور خلاء بازوں کو پہنچانا آسان ہوگا، یعنی بغیر راکٹ لانچ کیے، لفٹ کی مدد سے خلاء میں جانا ممکن ہوگا۔ اس پراجیکٹ پر کب کام شروع کیا جائے گا، فی الحال دور دور تک کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

محمد شاہ زیب صدیقی

زیب نامہ