کرنسی نوٹوں کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اس کی ویلیو حکومت طے کرتی ہے۔جسکے لئے ضروری ہے۔ کہ اس ملک کے پاس اس مالیت کے اثاثے ہو۔ کسی بھی ملک میں جتنے پیسے ہوتے ہیں اس پیسوں کے مطابق ہی چیزوں کی قیمتیں طے ہوتی ہیں۔ہمارے کرنسی نوٹ پر واضع الفاظ میں لکھا ہوتا ہے کہ بینک دولت پاکستان  حاملِ ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا۔ حکومت پاکستان کی ضمانت سے جاری ہوا"۔ 

اگر حکومت اپنی ضمانت واپس لے لیں تو  نوٹوں کی وہی حیثیت ہو جائے گی جو ردی کاغذ کی ہوتی ہے۔

یہ ایک رسید ہے، ایک وعدہ ہے، ایک حلف نامہ ہے کہ اس کے بدلے میں جب اور جس وقت رسید کا حامل سونا، چاندی، اجناس یا جو چیز طلب کرے حکومت پاکستان اس کو ادا کرے گی۔


جب زیادہ نوٹ چھاپنے کی وجہ سے زیر گردش نوٹوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے تو اسے افراط زر یا انفلیشن (inflation) کہتے ہیں۔ عام طور پر اس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ 

جب زیر گردش نوٹوں کی تعداد میں کمی آ جاتی ہے تو اسے قلت زر یا ڈی فلیشن (deflationn) کہتے ہیں۔ عام طور پر ایسے موقع پر قیمتیں گرنے لگتی ہیں۔


سارے سینٹرل بینک نوٹ چھاپ کر دولت تخلیق کرتے ہیں اور اسے مارکیٹ میں پھیلانے (float) کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے انفلیشن وجود میں آتا ہے۔ اس لیے سینٹرل بینک انفلیشن کے سب سے بڑے حامی ہوتے ہیں اور ہمیشہ یہ وکالت کرتے ہیں کہ انفلیشن معیشت کے لیے ضروری ہے۔ اگر کبھی قیمتوں کا بڑھنا بے قابو ہونے لگتا ہے تو سینٹرل بینک شرح سود بڑھا دیتے ہیں جس سے زیر  گردش نوٹوں کی بڑی مقدار بینک یا بچت اسکیموں میں جمع ہو جاتی ہے اور انفلیشن کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ 


سینٹرل بینکوں کے لیے ڈی فلیشن کو کنٹرول کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ شرح سود بڑھانے کی کوئی حد نہیں ہوتی مگر گرانے کی حد ہوتی ہے (جو صفر ہے)۔ اس لیے سینٹرل بینک ڈی فلیشن کو نہایت تباہ کن قرار دیتے ہیں حالانکہ قیمتیں گرنے سے عام آدمی کو فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن قیمتیں گرنے سے کارخانوں کے مالکان کا منافع کم ہو جاتا ہے اور وہ بینکوں سے لیا گیا قرضہ واپس چُکانے کے قابل نہیں رہتے اس لیے بینک نقصان اٹھاتے ہیں۔ سرمایہ دار  کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی حکومت کی ٹیکس سے ہونے والی آمدنی بھی گر جاتی ہے۔


کسی بھی ملک کا انفلیشن ریٹ اگر 50 فی صد سے بھی بڑھ جائے تو وہ ہائپرانفلیشن میں شمار ہوتا ہے اور وہ اُس ملک کے لیے شدید ترین پریشانی کا باعث بن جائے گا لیکن 2008 میں زمبابوے کا انفلیشن ریٹ 79.6 ارب فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ افریقی ملک زمبابوے میں ڈالر کی قیمت قابو سے باہر ہونے کے بعد مقامی کرنسی اس قدر گری کہ اس کا کوئی شمار ہی ممکن نہ رہااور بلآخر حکومت کو مقامی کرنسی کے خاتمے کا اعلان کرنا پڑ گیا ۔ زمبابوے کے اقتصادی مسائل میں شدت آنے کے بعد ملک میں افراط زر میں اس قدر اضافہ ہوا کہ دن میں دو دو بار قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا


اور مقامی کرنسی کی قیمت اتنی کم ہوگئی کہ لوگوں کو نمک خریدنے کے لئے بھی نوٹوں کی بوریاں بھر کر لے جانا پڑتی تھیں۔اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ زمبابوے نے گنتی کے لحاظ سے دنیا کا سب سےبڑے نوٹ کا اجرا تک کردیا لیکن اس کی قیمت ہمارے سوروپےکے برابر بھی نہ تھی۔ یہ صورتحال دیکھتے ہوئے حکومت نے مقامی کرنسی کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا اور عوام کے لئے اعلان کیا گیا کہ وہ اپنے پاس موجود مقامی کرنسی کو امریکی ڈالر کے ساتھ تبدیل کرواسکتے ہیں، البتہ اربوں کھربوں مقامی ڈالروں کے عوض ملنے والے امریکی ڈالروں کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوگی ۔ 


برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق اگر کوئی شخص 250 کھرب مقامی ڈالر لے کر بینک میں جائے گا تو اسے بدلے میں ایک امریکی ڈالر ملے گا۔ زمبابوے کی حکومت نے مقامی ڈالر کا آخری نوٹ 2008ءمیں جاری کیا تھا جس کی مالیت 100 کھرب تھی لیکن یہ دفتر جانے کے لئے بس کا کرایہ اداکرنے کے لئے بھی ناکافی تھا۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا، مہنگائی نے ساری حدیں پار کر دیں۔  

بہرحال یہ نوٹ دنیا کا ایک ریکارڈ ضرور بنا گیا۔جو کہ گنتی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا کرنسی نوٹ تھا۔ شائد یہ ریکارڈ اب کبھی نہ ٹوٹ پائے۔