سورج ماضی میں ہماری افسانوی دُنیا کا مرکز رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسے کچھ مذاہب میں آسمان پر راج کرنے والے طاقتور ترین دیوتا کی حیثیت بھی حاصل رہی، مثلاً یونانی سورج کو ہیلیوس دیوتا کے نام سے پُکارتے تھے جو صبح سویرے اپنی بگی پر نکلتا تھا اور دنیا کو منور کرتا جاتا تھا۔ اسی طرح ایزٹیکس(میکسیکو میں رہنے والے قبائل)، مصری تہذیبوں اور پھر ہندی تہذیبوں میں بھی سورج کو اہم دیوتا کی حیثیث حاصل رہی ۔

لیکن پھر علمی انقلاب کا سنہرا دور آیا، جس میں کچھ سائنسدانوں نے لینز کی مدد سے سورج کی حقیقت جاننے کی کوشش کی۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر تو سورج لکڑی کا بنا ہوا ہے یا پھر کسی تیل کی مدد سے جل رہا ہے تو اس کو کب کا بُجھ جانا چاہیے تھا دوسرا یہ کہ اگر خلاء میں واقعی ہوا موجود نہیں ہے تب بھی سورج کے شعلوں کو کب کا ٹھنڈا ہوجانا چاہیے تھا لیکن ہزاروں سال سے اسکا یونہی پوری آب و تاب سے جلتے رہنا حیران کن تھا، یہی وجہ ہے کہ سورج انسانوں کے لئے بحث کا اہم موضوع رہا ۔

اس پہیلی میں مزید سنسنی پیدا کرنے میں فلاسفرز نے بھی اپنا حصہ ڈالا، سن 1842ء میں فرانسیسی فلاسفر آگسٹ کومٹ کے ایک دعوے نے سائنسدانوں میں بےچینی پیدا کردی، انہوں نے کہا کہ سائنس اگرچہ کائنات کی اتھاہ گہرائیوں میں موجود رازوں سے پردہ اُٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن ایک چیز وہ کبھی نہیں جان پائے گی، وہ یہ کہ سورج اور بقیہ سیارے کس چیز سے بنے ہیں؟یہ سوال انتہائی منطقی بھی تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس کی بنیاد ہی تجربات پر مبنی ہے۔مطلب یہ کہ سائنس جو بھی دعویٰ کرتی ہے اس کو کسی تجربہ گاہ میں دہرایا جاسکتا ہے اور ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے لیکن سورج کے معاملے میں مسئلہ یہ ہے کہ اس  کے کسی حصے کو سیمپل کے طور ٹیسٹ کے لئے کسی بوتل میں بند کرکے زمین پر نہیں لایا جاسکتا، جس وجہ سے اُس وقت یہ خیال کیا جاتا تھا کہ آگسٹ کومٹ درست ہیں اور سورج تاقیامت ہمارے لئے پہیلی ہی بنا رہے گا۔ یہ دعویٰ آگسٹ نے اپنی کتاب "دی پازیٹیو فلاسفی "میں کیا تھا، لیکن حیران کن طور پر اس کتاب کے چھپنے کے محض چند سال بعد ہی سائنسدانوں نے اِس پہیلی کا جواب معلوم کرلیا اور اعلان کیا کہ سورج ہائیڈروجن کا بنا ہوا ہے ۔

آگسٹ اپنے لحاظ سے درست ہی تھے لیکن وہ یہاں ایک تکنیکی غلطی کربیٹھے تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ سائنسی دعوؤں کو تجربہ گاہ میں دہرایا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سائنس میں ہم بہت سے چیزیں بالواسطہ (indirect) بھی معلوم کرسکتے ہیں۔ مثلاً فروان ہوفر انیسویں صدی میں وہ پہلے سائنسدان تھے ،جنہوں نے سپیکٹروگراف کے ذریعے ہزاروں سال سے جاری اس سوال کا جواب معلوم کیا (ہمیں معلوم ہے کہ کسی بھی چیز کو جب گرم کیا جاتا ہے تو وہ روشنی خارج کرتی ہے ، اس روشنی کو پِرزم میں سے گزرا جاتا ہے  تو یہ قوس قزاح کی طرح مختلف رنگ میں تقسیم ہوجاتی ہے، اگر آپ ان رنگوں کو غور سے دیکھیں تو اس میں کالے رنگ کی لائنز موجود ہوتی ہیں، یہ لائنز اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ کسی چیز کو گرم کرنے پر اس میں موجود الیکٹرانز  اندرونی مدار سے چھلانگ لگا کر بیرونی مدار میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ، اب چونکہ ہر عنصر میں الیکٹران کی تعداد مختلف ہوتی ہے جس وجہ سے ہر عنصر سے نکلنے والی روشنی میں یہ لائنز مختلف تعداد میں ہوتی ہیں، یہ ایک طرح کا فنگر پرنٹ ہوتا ہے جس کے ذریعے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ کسی بھی شے میں کونسا عنصر موجود ہے)۔ سورج کی روشنی کا طریقہ کار سے  تجزیہ کرنے پر فروان ہوفر اور دیگر سائنسدانوں نے معلوم کیا کہ سورج دراصل ہائیڈروجن کا بنا ہوا ہے، لیکن اس دوران جس چیز نے انہیں چونکا دیا وہ یہ تھی کہ سورج میں ایک اور نیا عنصر بھی موجو دتھا، جسے آج تک ہم نے نہیں دیکھا تھا۔ اس نئے عنصر کو انہوں نے ہیلیم نام دیا، ہیلیم کا مطلب ہے "سورج آئی ہوئی دھات"، لہٰذا ہیلیم وہ واحد عنصر ہے جسے سورج پر دریافت کیا گیا یعنی  وہ ہمیں اُس وقت تک زمین پر نہیں ملا تھا، بعدازاں مزید تحقیقات سے پتہ چلا کہ ہیلیم کوئی دھات نہیں ہوتی بلکہ گیس ہوتی ہے۔

اس کے بعد فروان ہوفر نے ستاروں سے آنے والی روشنی کا تجزیہ کرنے کا فیصلہ کیا، وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ستاروں پر تو وہی عناصر موجود ہیں جو زمین پر بکھرےپڑے ہیں، یہ پہلی بار تھا کہ ہمیں معلوم ہوا کہ کائناتی قوانین بقیہ کائنات پر بھی اسی طرح لاگو ہوتے ہیں جیسے ہمارے سولر سسٹم پر لاگو ہیں ۔ بعدازاں جب آئن سٹائن کے نظریات نے بقیہ دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا تو امریکی سائنسدان ہنس بیتھ نے یہ جاننے کے لئے تحقیقات شروع کیں کہ سورج اگرچہ ہائیڈروجن سے بنا ہوا ہے لیکن یہ اتنی توانائی کیسے پیدا کرتا ہے؟ تحقیقات سے انہیں اندازہ ہوا کہ سورج کی بے پناہ گریوٹی کے باعث ہائیڈروجن کے ایٹمز  ایک دوسرے نزدیک آتے ہیں اور ملکر ہیلیم بنا لیتے ہیں،اس عمل کے دوران شدید توانائی پیدا ہوتی ہے اور زمین تک گرمائش اور روشنی کی شکل میں پہنچتی ہے یعنی سورج پر نیوکلئیر ریکشن چل رہا ہے۔اس توانائی کو آئن سٹائن کی ایکویشن E=mc2 کے ذریعے معلوم بھی کیا جاسکتا ہے، یہ انسانوں کے لئے حیران کن تھا کہ جسے وہ ہزاروں سال سے دیوتا سمجھتے رہے وہ تو دراصل ایک نیوکلئیر ریکٹر مشین تھی جو ان کے سَروں پر منڈلارہی ہے۔

محمد شاہ زیب صدیقی

نوٹ: اس مضمون میں میچیو کاکو کی کتاب "دی گاڈ ایکویشن" کے چند صفحات کو اپنے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ نیوکلئیر ریکشن دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک کو ہم نیوکلئیر فیوژن ریکشن کہتے ہیں جو ستاروں میں ہورہا ہوتا ہےجب کہ دوسرا نیوکلئیر فشن ریکشن ہوتا ہے ، نیوکلئیر فشن ریکشن کے دوران ہم نیوکلئیر ریکٹرز کے ذریعے بجلی پیدا کرتے ہیں لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ خطرناک ریکشن آؤٹ آف کنٹرول ہوجاتا ہے، جوکسی المناک سانحے کا سبب بن سکتا ہے، ایسا ہی کچھ 1986ء میں رُوس میں ہوا تھا، جس کے نتیجے انسانیت کو تباہ کن واقعات دیکھنے کو ملے تھے۔