ہمیں علم ہے کہ آئن سٹائن اپنی یونیفائید فیلڈ تھیوری مکمل نہیں کرپائے،اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اس ساری پہیلی کو سُلجھاتے ہوئے ایک اہم حصے کو نظرانداز کیے رکھااور وہ اہم حصہ نیوکلئیر فورس تھا۔ ایسا اس وجہ سے ہواکیونکہ 1930ء اور 1920ء کی دہائیوں میں نیوکلئیر فورس کے متعلق کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا لیکن پھر جنگ عظیم دوم کے بعد کوانٹم الیکٹروڈائنیمک (QED)کی حیرت انگیز کامیابیوں نے سائنسدانوں کی توجہ اس سُلگھتے ہوئے مسئلے کی جانب دلائی یعنی کوانٹم تھیوری کو نیوکلئیر فزکس پر اپلائے کرنا۔ یہ مرحلہ انتہائی مشکل اور کٹھن تھا کیونکہ ہم ایسی نگری میں قدم رکھ رہے تھے جس کے متعلق ہمیں کچھ بھی علم نہیں تھا۔ اس پر تحقیقات کے لئے ہمیں نئے سِرے سے آلات بنانے کی ضرورت تھی۔
نیوکلئیر فورسز دو طرح کی ہوتی ہیں، سٹرانگ اور ویک نیوکلئیر فورس۔ہمیں علم ہے کہ پروٹان پر مثبت چارج ہوتا ہے، ایک ایٹم میں کئی پروٹانز موجود ہوتےہیں، چونکہ مثبت چارجز ایک دوسرے کو پَرے دھکیلتے ہیں جس وجہ سے اُصولی طور پر تو ایٹمز کے پرخچے اُڑ جانے چاہیے تھے۔ ایٹم میں نیوکلئیس نامی ننھی سی جگہ پراتنے زیادہ پروٹانز کو اکٹھا کون رکھتاہے؟ اسے ہم سٹرانگ نیوکلئیر فورس کہتے ہیں۔اگر یہ قوت نہ ہوتی تو پوری کائنات میں کوئی بھی ایٹم موجود نہ ہوتا ، پوری کائنات سب ایٹامک ذرات کا بادل ہوتی۔
یعنی آسان الفاظ میں کہا جائے تو سٹرانگ نیوکلئیر فورس کی وجہ سے عناصر کے نیوکلئیس اسٹیبل ہوتے ہیں۔ جن عناصر میں پروٹان اور نیوٹران کی تعداد ایک جیسی ہے وہ تو کائنات کی شروعات سے اب تک اسٹیبل ہیں مگر کچھ ایسے بھی عناصر ہوتے ہیں جو اسٹیبل نہیں ہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں،اگر کسی عنصر کے نیوکلئیس (مرکز) میں نیوٹران اور پروٹان بہت زیادہ تعداد میں ہیں تو اس کا مرکز ان اسٹیبل ہوسکتا ہے کیونکہ ویک نیوکلئیر فورس اتنے زیادہ نیوٹرانز کو نہیں سنبھال سکتی ۔ مثال کے طور پر آزاد نیوٹران کا کوئی بھی گُچھا محض 14 منٹ میں ٹوٹ کر پروٹان، الیکٹران اور اینٹی نیوٹرینو نامی پُراسرار ذرے میں تقسیم ہوجاتا ہے۔
سائنسدانوں کے لئے نیوکلیئر فورسز پر تحقیقات کرنا انتہائی مشکل اس لیے بھی تھا کیونکہ نیوکلئیس کسی بھی ایٹم کے سائز سے ایک لاکھ گُنا چھوٹا ہوتا ہے، لہٰذا اس میں جھانکنے کے لئے ہمیں ایک نئے آلے کی ضرورت تھی، جسے آج ہم پارٹیکل ایکسلیٹر کہتے ہیں۔
سن 1929ء میں ارنسٹ لارنس نے سائیکلوٹرون نامی پہلاپارٹیکل ایکسلیٹر بنایا، یہ انتہائی سادہ آلہ تھا۔ اس میں ہم مقناطیس کی مدد سے پروٹانز کو ایک گول دائرے میں گھُما سکتے تھے اور ہر چکر میں توانائی دے کر ان کی رفتار بڑھا سکتے تھے۔جب کئی چکروں کے بعد ان کی توانائی اربوں الیکٹران والٹ تک ہوجاتی تو مخالف سمت سے آنے والے پروٹانز کا آپس میں تصادم کروا دیا جاتا۔اس ٹکراؤ کے نتیجے ذرات کا ملبہ بکھر جاتا، جس میں تانک جھانک کرکے سائنسدان ایسے نئے ذرات تلاش کرتے جن کو آج تک نہیں دیکھا گیا۔پروٹانز کے اندر جھانکنے کا یہ واحد طریقہ اتنا کامیاب رہا کہ جب سائنسدانوں نے پہلی بار پروٹانز کی ٹکر کروائی تو اُن کے سامنے نئے ذرات کا جیسے میلہ لگ گیا۔ ہمیں لگتا تھا کہ جیسے جیسے ہم ایٹمز کی گہرائی میں جائیں گے معاملات سادہ سے سادہ ہوتے جائیں گے لیکن ایسا نہیں تھا۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ روز نئے ذرات کی دریافتوں سے تنگ آکر مشہور سائنسدان روبرٹ اوپن ہینر نے تجویز پیش کی کہ ہمیں نوبل انعام اس سائنسدان کو دینا چاہیے جو اس سال کوئی نیا ذرہ دریافت نہیں کرے گا(یاد رہے کہ اوپن ہینر وہی سائنسدان ہیں جنہوں نے ایٹم بم ایجاد کیا تھا)۔ ایک اور مشہور سائنسدان انریکو فرمی نے یہاں تک کہہ دیا کہ مجھے اگر معلوم ہوتا کہ فزکس میں یونانی ناموں کے حامل اتنے زیادہ ذرات دریافت ہونے ہیں تو میں ماہر طبیعات بننے کی بجائے ماہر نباتات بن جاتا۔
یہ وہ دور تھا جب سائنسدان نئے ذرات کے سمندر میں بہہ رہے تھے، کچھ سائنسدان یہاں تک دعویٰ کرنے لگے کہ جیسے کسی جانور کو کیلکولکس (ریاضی) سمجھانا ممکن نہیں بالکل اسی طرح انسانی دماغ اتنا ذہین نہیں کہ وہ سب ایٹامک لیول کی دنیا کو سمجھ سکے۔ لیکن پھر بعدازاں Caltech کے سائنسدان ماری گیل مین اور ان کی ٹیم نے سب ایٹامک ذرات کی درجہ بندی کا فیصلہ کیا۔ یہ بالکل ویسا ہی تھا جیسے مینڈلیف نے پیراڈک ٹیبل بنا کر کائنات کے تمام عناصر کو ایک صفحے پر سمویا۔ گیل مین نے اپنی تھیوری کے ذریعے مستقبل میں دریافت ہونے والے ذرات اور ان کی خصوصیات تک کی بھی پیشنگوئی کی۔اُن کی پیشنگوئی کے مطابق 1964ء میں اومیگا مائنس نامی سب ایٹامک ذرے کی دریافت نے ان کی تھیوری پر مہرتصدیق ثبت کی اور انہیں اس پر فزکس کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔
میچیو کاکو کی کتاب "دی گاڈ ایکویشن" سے اقتباس – مترجم: محمد شاہ زیب صدیقی
زیب نامہ
0 Comments