ہمیں علم ہے کہ کائنات کی ابتداء آج سے تقریباً 14 ارب سال پہلے بگ بینگ سے ہوئی۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ اس واقعے کے بعد ہماری کائنات اندازاً 3 لاکھ 80 ہزار سال تک اندھیروں اور گھنے بادلوں میں ڈوبی رہی، آہستہ آہستہ کائنات کے پھیلنے کے باعث یہ بادل ہلکے ہونا شروع ہوگئے اور کائنات شفاف ہوئی،جس کے بعد کائنات کے کسی گوشے میں ان بادلوں کے باعث ایک ستارہ بنا جس نے کائنات میں نئے عہد کی نوید سُنائی اس کے بعد سے آج تک ستارے بنتے آرہے ہیں اور مٹتے جارہے ہیں۔
علم کے حصول کا طویل سفر طے کرنے کے بعد آج نسل انسانی جانتی ہے کہ ہماری کائنات میں 2000 ارب کہکشائیں موجود ہیں اور ہر کہکشاں تقریباً 400 ارب ستاروں پہ مشتمل ہے،کئی کہکشائیں اس سے بھی زیادہ ستاروں بھی مشتمل ہیں۔ جیسے اربوں ستارے مل جائیں تو کہکشاں بنتی ہے، ایسے ہی درجنوں کہکشائیں مل کر لوکل گروپ بناتی ہیں۔ ہمارے لوکل گروپ میں 54 کہکشائیں موجود ہیں اور ایسے ہی کئی لوکل گروپس ملکر کلسٹر بناتے ہیں۔ ہم جس کلسٹر کا حصہ ہیں اسے وِرگو کہا جاتا ہے، اس میں سو سے زائد لوکل گروپس موجود ہیں،چھوٹے چھوٹے کلسٹرز ملکر سپر کلسٹر بناتے ہیں، ہمارے سپر کلسٹر کا نام Laniakea Super cluster ہے۔ Laniakea سپر کلسٹر کا سائز تقریباً 52 کروڑ نوری سال ہے! فلکیات دانوں کا خیال ہے کہ ہماری کائنات میں دس کروڑ سپر کلسٹر ہوسکتے ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ اتنی بڑی کائنات ہے اور ہم اکیلے ہیں!
لوکل گروپ، کلسٹر، سپر کلسٹریہ سب کیا ہوتے ہیں؟مزید تفصیل سے جاننے کے لیے مضمون کے آخر میں موجود لنک پر کلک کیجیئے۔
بہرحال پہلے پہل ہمارا خیال تھا کہ یہ کلسٹر اور سپر کلسٹر کائنات بننے کے بہت بعد میں بنے کیونکہ ان میں کھربوں کے حساب سے ستارے موجود ہوتے ہیں اورکائنات کے اولین وقت میں ستاروں کی تعداد کم تھی لیکن کچھ عرصہ پہلے ماہرین فلکیات نے 11 ارب 40 کروڑ نوری سال دور ایک عظیم کلسٹر دیکھا ہے جسے Hyperion Proto-cluster نام دیا گیا ہے۔
یہ دس ہزار کہکشاؤں پہ مشتمل ہے اور کروڑوں نوری سال کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے،یوں اس کا شمار اب تک دریافت ہونے والےعظیم ترین کلسٹرز میں ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اس تحقیق کی اہمیت اس وجہ سےزیادہ بڑھ جاتی ہے کہ عظیم کلسٹرز اب تک قریبی علاقوں سے دیکھنے کو ملے ہیں یہ پہلی بار ہے جب کائنات کے دُور دراز کناروں سے کوئی دیوہیکل کلسٹر دیکھنے کو ملا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کائنات نے پیدائش کچھ عرصے بعد ہی عظیم کلسٹرزبنانا شروع کردئیےتھے، اسی وجہ سے اس کلسٹر کی مدد سے کائنات کے اولین دور کے بارے میں خبریں بھی ہمیں ملنے کی توقع ہےکیونکہ یہ کلسٹر کائنات کی تخلیق کے محض 2.4 ارب سال بعد وجود میں آگیا تھا اور ابھی ہم اس کلسٹر کی جو حالت دیکھ رہے ہیں دراصل وہ اُسی وقت کی ہی ہے، جب ہماری کائنات نومولود تھی، یعنی 11.4 ارب سال پہلے چلنے والی روشنی اب ہم تک پہنچ رہی ہے۔
اس کلسٹر میں کہکشائیں بپھری ہوئی ہیں یعنی کہیں بہت زیادہ ہیں کہیں بہت کم ہیں، سائنسدان پُرجوش ہیں کہ اس کے ذریعے ہمیں کائنات کے بچپن کے متعلق آگاہی ملنے کے ساتھ ساتھ ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر جیسے کئی دیگر مظاہر کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
یہ کلسٹر یہ بھی بتانے میں مدد کرسکتا ہے کہ انفجارِ عظیم (بیگ بینگ) نظریہ کس حد تک درست ہے کیونکہ آج تک تمام مشاہدات بیگ بینگ نظریے کی حمایت کرتے آئے ہیں۔سائنس کہتی ہے کہ موجودہ علم کے مطابق ہم ماضی میں نہیں جاسکتے مگر ٹیلی سکوپ کو استعمال کرتے ہوئے کائناتی دریچوں کے ذریعے ماضی میں جھانکا ضرور جاسکتا ہے،بلکہ “ماضی” کو”Live”دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ آسمانی پردے پر دکھائی دینے والے تمام واقعات دراصل ماضی کا ہی حصہ ہیں، کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ آج یہ Hyperion کلسٹر موجود نہیں ہے بلکہ اربوں سال پہلے ہی کائناتی سمندر میں تحلیل ہوکر ختم ہوچکا ہے مگر چونکہ اس کی روشنی ہم تک اب پہنچ رہی ہے لہٰذا ہمارے لئے یہ اب بھی زندہ ہی ہے ۔کائنات حیرتوں کا سمندر ہے، انسان ہزاروں سال سے اس کو جاننے کی جستجو میں لگا ہوا ہےاور ابھی بھی ورطہ حیرت میں ڈُوبا ہوا ہے،اسی خاطر کہا جاتا ہے کہ کائنات کو جانیے اس سے ناطہ جوڑیے زندگی آسان لگے گی، مشکلات ختم ہوتی دکھائی دیں گیں۔
محمد شاہ زیب صدیقی
زیب نامہ
0 Comments